Saturday, January 29, 2011

two of my recent tries in poetry

فکر کیجئے نہ ذرا ، بات ہے معمول کی
وہ دھماکہ اور تھا، یہ دھماکہ اور ہے
یہ پڑا اس گال پے، وہ پڑا اس گال پے
وہ طمانچہ اور تھا ، یہ طمانچہ اور ہے


شب سیاہ سے تاریک تر ہیں دن میرے
نظر کی حد سے پرے تک کہیں افق ہی نہیں
مے امروز میں تلخی کے سوا کچھ بھی نہیں
میری آنکھوں میں تیرگی کے سوا کچھ بھی نہیں

...ماہ دو نیم کے وہ ہم سفر کدھر جائیں
جو کھو گئے ہیں رہ گزر میں وہ کدھر جائیں
اجڑ گئے ہیں جو دل وہ کہیں بسیں گے اب؟
بچھڑ گئے ہیں جو امید سے جیئں گے کب ؟

اداس شاموں کی تلخی اتار لو دل میں
رگ و پے میں ہے جو آتش وہ راکھ ہونے دو
لبوں کو سی کے بے نوائی سے لگا لو جی
ذھن کو ہوش کی دنیا سے دور لے جاؤ

ان بستیوں میں جنوں کی ہے کار فرمائی
خرد کو مقتل ہوس کی نظر کر بھی چکے
جو منزلوں کی طرف تھی وہ راہ کھو بھی چکے
گرگ عیار کو ہم جان سپرد کر بھی چکے

یہ لوگ جن کی دسترس میں اپنا آپ نہیں
یہ زندہ ہیں یا فقط زندگی پے تہمت ہیں؟
فکر سے دور، عمل سے پرے ، ہوس میں گھرے
یہ کونسی ہے بستی، یہ لوگ کیسے ہیں ؟

اپنی ہستی کو پے درپے آزار کئے
یہ سانس لیتے ہوے جسم ایک دھوکہ ہیں
یہ تماشا ہیں آپ، خود ہی تماشائی ہیں
یہ آپ دست-ے-قضا آپ اپنے قاتل ہیں

مذہب-و-نسل-و-زبان چند استیارے ہیں
کہ اختلاف سے ہوتی ہے نمو فردا کی
وگرنہ میں بھی وہی، تم بھی وہی انسان ہیں
اصل میں صید ہیں ، صیاد سے جو غافل ہیں

یہ کون ہے جو تیرگی کی طرف مائل ہے؟
یہ کون ہے جو بدلتی رتوں سے خائف ہے؟
یہ کون ہے جو ظلمتوں کو طول دیتا رہے ؟
یہ کون ہے جو چاہتا ہے خون بہتا رہے؟

یہ لوگ جو شب-ے-سیاہ کا شکار ہوے
فسوں کا تیر بنے، حاصل-ے-عیار ہوے
جو جاگ جائیں تو یہ زندگی کا محور ہوں
جو جان جائیں تو یہ راہبر-و-محافظ ہوں

No comments:

Post a Comment