Thursday, March 31, 2011

we reflect what we have been taught

پاکستان اور انڈیا کے حالیہ میچ سے پہلے اور بعد جو کچھ دیکھنے سننے کو ملا بہت غیر متوقع تو نہیں مگر تکلیف دہ پھر بھی ہے.دونوں طرف یار لوگوں نے ایک کھیل کو جس طرح سے انا کا مسئلہ بنا لیا، کفر اور اسلام کا مقابلہ، کشمیر کا انتقام، جہاد، ممبئی دھماکوں کا انتقام، دہشت گردوں کو سزا اور خدا جانے کیا کیا کچھ، ہم اپنی تمام خوش فہمیاں یا یوں کہیں کہ غلط فہمیاں اور مغالطے کھل کر سامنے لے آئے . اچھی بات یہ ہے کہ ایک بڑی اکثریت ایسی بھی ہے جو ان خوش فہمیوں کا شکار نہیں ہے اور لوگوں نے معاملہ فہمی اور دانش مندی کی باتیں بھی کیں کہ کھیل کو کھیل سمجھا جائے، فاصلے دور کرنے کے مواقعے ملیں تو ان سے فایدہ اٹھایا جائے، پر سکون اور مثبت سوچ کے ساتھ رہا جائے. دونوں حکومتوں نے بھی موقع سےفایدہ اٹھایا اور بات چیت کی راہ نکالی. کھیل ہوا ، بہت خوب ہوا اور حسب معمول ایک ٹیم ہاری ، ایک جیت گئی، مگر ہمارے روئیے کئی سوال چھوڈ گئے اور کسی حد تک ایک خلش بھی کہ کاش کبھی ہم کھلے دل اور دماغ سے ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کر سکیں اور مل کر چل سکیں.

پاکستان اور ہندوستان دونوں طرف اکثریت کی فکری کج فہمیوں کی بڑی وجہ وہ معلومات ہیں جو عوام کو فراہم کی جاتی ہیں اور وہ نصاب جو نظام تعلیم کا حصّہ ہے اور فکری بنیادیں فراہم کرتا ہے. ہمارا میڈیا عام طور سے دونوں ممالک کے تعلقات کی جو تصویر پیش کرتا ہے اور جو رائے ہمارے اصحاب دانش عام طور پر رکھتے ہیں وہ سازش کے نظریے پر مشتمل ہے اور یہ پیغام دیتی ہے کہ کچھ بھی ہو ہم ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کر سکتے اور ہم ایک دوسرے کی سلامتی کے لئے ایک مستقل خطرہ ہیں. اسی طرح ہماری نصابی کتب بھی یک طرفہ، کمزور اور خود ساختہ تصویر پیش کرتی ہیں جو تاریخی حقائق کی صریح نفی ہے مگر اتنا زیادہ ہمارے خیالات اور اعتقادات کا حصّہ بن چکی ہے کہ ہم یہ بھی برداشت نہیں کر پاتے اگر کوئی اس کے خلاف کوئی بات کرے. ظاہر ہے کہ بچپن میں سے سیکھ لئے جانے والے اور دماغ پر نقش ہو جانے والے خیالات ہماری ذات اور شخصیت کا حصّہ بن جاتے ہیں اور ان کی نفی ہماری انا اور ذات کی نفی بن جاتی ہے. اگر ہندو اور مسلمان اتنے ہی تضادات کے حامل تھے جتنا کے ہماری نصابی کتب بتاتی ہیں تو پھر یہ ہزار سال سے زیادہ ایک ساتھ کیسے رہے؟ اگر ہندو اتنے ہی برے تھے تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ ہندوستان میں اسلام پر امن طریقے سے پھلا پھولا، ظاہر سی بات ہے کے ہندو ہمیشہ سے اکثریت میں تھے اگر ان میں عام رواداری اور برداشت نہیں ہوتی اور معاشرہ امن پسند اور خود کفیل نہ ہوتا تو باہر سے آنے والوں کو اپنے اندر ضم کیسے کرتا. حقیقت یہی ہے کہ مسلمان آج بھی ہندوستانی معاشرے کا ایک حصّہ ہیں اور اسلام کو ہندوستان میں کوئی خطرہ نہیں ہے. یہ درست ہے کے ہندوستانی معاشرہ تضادات کا شکار ہے، اور فرقہ پرستی، ذات پات، غربت اور جہالت اس ملک کے بڑے مسائل ہیں مگر یہ مسائل پاکستان میں بھی موجود ہیں اور ان مسائل کو صرف ہندو مسلم تناظے یا مذہبی اختلافات کے پس منظر میں دیکھنا کسی طور جائز نہیں. اسی طرح پاکستانی بھی اتنے ہی انسان ہیں جتنے کے ہندوستان میں رہنے والے، ہم اسی طرح ہنستے بولتے، خوش اور غمگین ہوتے ہیں جیسے دنیا کا کوئی اور انسان، یہاں سارے کے سارے تنگ نظر ملا نہیں رہتے جیسا کے میڈیا بتاتا ہے یا نصاب میں لکھا جاتا ہے. ہم اتنے ہی زندہ دل اور امن پسند ہیں جتنا کے ہمارے پڑوسی.

ہمارے اختلافات نے ہم کو اس حد تک کوتاہ نظر اور خود غرض بنا دیا ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کو انسان سمجھنا چھوڈ دیا ہے. ہندوستانی یا پاکستانی کا خیال کرتے ہی ہمارے ذہنوں میں سازش، نفرت اور تعصب کے ایسے خیال جنم لیتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو ان کے حوالے کر دیتے ہیں اور ایک دوسرے کا ایک فرضی خاکہ تیار کر کے ٹھان لیتے ہیں کہ کچھ بھی ہو اعتماد نہیں کرنا. ہمیں یہ ادراک ہونا چاہیے کہ کشمیر ہو یا سیاچین ،دفاعی معاملات ہوں کہ قدرتی وسائل کا اشتراک ، یہ سب سیاسی معاملات ہیں کوئی آفاقی حقیقت نہیں کہ بات چیت اور رضامندی سے حل نہ ہو سکیں. ہمارا یہ رویہ ہر بار ابھر کر سامنے آتا کہ ہماری نظریاتی قدریں اتنی کمزور ہیں اور ہم اتنے کمزور اور غیر محفوظ ہیں کہ کوئی موقع ہو ہم اعتماد اور سکون کے ساتھ حالات کا سامنا نہیں کر سکتے. ہمارے سیاسی اور نظریاتی خیالات اتنے غیر مستحکم، غیر حقیقی اور فرسودہ ہیں کہ ہم خود اپنا مذاق بن جاتے ہیں اور دنیا کو خود پر ہنسنے کا موقع دیتے ہیں. ہم ایک کھیل کو پوری سنجیدگی کے ساتھ معرکہ حق و باطل میں تبدیل کر دیتے ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ یہ کتنا بچکانہ اور غیر حقیقت پسند رویہ ہے.

ہمارے نصاب اور ابلاغ میں ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ماضی میں سب کچھ بے حد شاندار تھا ، ماضی میں ہمارے اجداد نے اگر کوئی غلطیاں کن یا شکاست و ریخت کا سامنا کیا تو یا تو ان کا ذکر ہی نہیں کیا جاتا یا پھر ذمےداری کسی اور قوّت یا ایسے عوامل پر ڈال دی جاتی ہےکہ ہم ذمّہ داری سے بچ نکلیں، اسی طرح حال کا بھی یہ سبق دیا جاتا ہے کہ ہم تو اچھے ہیں اگر ہمارے ساتھ برا ہوتا ہے تو اوروں کی وجہ سے، نتیجہ یہ ہے کے اس نصاب کو پڑھنے والے شکست کا سامنا نہیں کر سکتے، ہمارا یہ رویہ بھی ہمارے بیشتر رد عمل میں جھلکتا ہے. ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کے انڈین ٹیم آزمودہ، تجربہ کار، اور منجھے ہوے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی اس لئے ان کا کھیل بہتر رہا. کسی نے کہا تھا کہ ہار جیسی کوئی چیز نہیں ہر عمل کے نتائج ہوتے ہیں کہ ان سے سبق سیکھا جا سکے تاکہ مستقبل میں اور اچھی کوشش کی جا سکے اور بہتر کام کئے جا سکیں. نتائج سے سیکھنا زندہ قوموں اور اشخاص کا وطیرہ ہے اور ہمیں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے.

Thursday, March 10, 2011

Ghazal written today

اندوہ خیز کوچہ و بازار دیکھتے رہے
لوگوں کو آپ در یے آزار دیکھتے رہے
اپنے ہی گھر میں آگ لگا کر وہ سادہ لوح
گرتے ہوے دریچہ و دیوار دیکھتے رہے
یہ کمال نطق ہے کہ لب مہر کیے ہوے
یہ ہنر ہے کہ ستم شعار دیکھتے رہے
کچھ اثر بھی ہو ہمارے درد کا ادھر کبھی
ہم تڑپ تڑپ کے رخ یار دیکھتے رہے
وہ جو تھا دیوانہ اپنی جان سے گزر گیا
ہم سفر سہم کے سوے دار دیکھتے رہے