Thursday, March 10, 2011

Ghazal written today

اندوہ خیز کوچہ و بازار دیکھتے رہے
لوگوں کو آپ در یے آزار دیکھتے رہے
اپنے ہی گھر میں آگ لگا کر وہ سادہ لوح
گرتے ہوے دریچہ و دیوار دیکھتے رہے
یہ کمال نطق ہے کہ لب مہر کیے ہوے
یہ ہنر ہے کہ ستم شعار دیکھتے رہے
کچھ اثر بھی ہو ہمارے درد کا ادھر کبھی
ہم تڑپ تڑپ کے رخ یار دیکھتے رہے
وہ جو تھا دیوانہ اپنی جان سے گزر گیا
ہم سفر سہم کے سوے دار دیکھتے رہے

No comments:

Post a Comment