ہو شب بیدار کو نہ کیوں سحر سے بے رخی
تیری آنکھوں کے اجالے صبحوں سے ہیں خوب تر
سوچئے اے عارف رنگین بیان یہ سوچئے
جو زمانہ ساز کہلاے ہوے کیوں در بدر
تو شب ویران کو صبح نو بنا کے پیش کر
ہم تری جادو نوائی کے ہیں قائل چارہ گر
ظلمت و افسوں کا ہے انجام کیا فرمائیے
چارہ سازی کیجئے کچھ تو دعا فرمائیے
منہ چھپا کے عہد حاضر سے سخن افروز ہوں
ساز گل، باد صبا، رنگین نوا فرمائیے
خون کی بارش سے رنگین مسند فرقاں ہوئی
...شیخ صاحب اور کچھ پند و ثنا فرمائیے
گل کیا جو تھا چراغ فہم و دانش آپ نے
جو بھی ہو آتش نوا اس کو سزا فرمائیے
مکتب و دانش تو ہیں لیکن توّجہ بھی تو ہو
ہے جنوں کی کار فرمائی تو کیا فرمائیے
No comments:
Post a Comment